ایم ایس ایم ای کی وزارت کے سکریٹری بی بی سواین نے کہا ہےکہ ہندوستانی انجینئرنگ ایم ایس ایم ای کو ان کی مینوفیکچرنگ لاگت کے فائدہ کی وجہ سے گلوبل ویلیو چین میں ضم کرنے کی زبردست صلاحیت موجودہے۔کل ای ای پی سی انڈیا کے زیر اہتمام ایم ایس ایم ای کنکلیو کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے، جناب سواین نے کہا کہ ایم ایس ایم ای کو اعلیٰ شرح نمو حاصل کرنے کے لیے دو اہم ترین اقدامات کی ضرورت ہے جن کا تعلق کریڈٹ اسسٹنس اور ٹیکنالوجی کےاپ گریڈیشن سے ہے۔ انہوں نے اس بات کو اجاگر کیا کہ ایم ایس ایم ای کی وزارت ایم ایس ایم ای کے لیے کاروبار میں آسانی پیدا کرنے کے لیے دیگر وزارتوں اور محکموں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔
جناب سواین نے کہا،’’ آتم نربھر کے اعلانات نے ایم ایس ایم ایز کے طور پر رجسٹریشن تک رسائی کو آسان بنانے، کریڈٹ تک ان کی رسائی کو آسان بنانے اور جہاں تک عالمی ٹینڈرز کا تعلق ہے، انہیں انتہائی ضروری تحفظ فراہم کرنے پر توجہ مرکوز کی ہے،‘‘۔ انہوں نے شرکاء کوبتایا کہ انجینئرنگ مصنوعات کی تیاری میں منسلک 67 لاکھ ایم ایس ایم ایز میں سے تقریباً 29فیصدایسے ہیں جنہوں نے 1 جولائی 2020 سے ادیم رجسٹریشن پورٹل پر رجسٹریشن کرایا ہے۔ جناب سواین نے کہا’’ ایم ایس ایم ای کےیونٹس ایک ساتھ مل کر ایک مکمل سپلائی چین تشکیل دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں اوران میں درمیانی سے حتمی مصنوعات تک اپنی مختلف النوع مصنوعات کی وجہ سے عالمی سطح پر مسابقتی ہونے کی بھی صلاحیت ہے۔
اپنے افتتاحی خطاب میں،ای ای پی سی انڈیا کے چیئرمین جناب مہیش دیسائی نے کہا کہ ایم ایس ایم ایز کو تکنیکی محاذ پر بہت کچھ حاصل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ عالمی ویلیو چین نے بھارت کی حصہ داری بڑھانے کے لیے نہایت ضروری ہے۔میک ان انڈیا پہل نے بھارت کی ایم ایس ایم ایز کو بڑے پیمانے پر عالمی مینوفیکچرنگ فرموں کے ساتھ کام کرنے اور ان کی اپ گریڈ شدہ ٹیکنالوجی اور موثر مارکیٹنگ تکنیکوں تک رسائی حاصل کرنے کی کافی گنجائش فراہم کی ہے۔جناب دیسائی نے کہا وبا کےآغاز کے بعد، ترقی یافتہ دنیا میں بڑی کارپوریشنیں مینوفیکچرنگ کے لیے بھارت کو ایک متبادل مقام کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔انہوں نے معیشت میں ایم ایس ایم ایز کے اہم کردار کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ اس شعبے کابھارت کی مجموعی گھریلو پیداوار(جی ڈی پی) میں تقریباً 30فیصد اور ملک کی برآمدات میں 50فیصدکا حصہ ہے۔بھارت میں ایم ایس ایم ای سیکٹر کی اہمیت کو طویل عرصے سے تسلیم کیا گیا ہے اور اس کی صلاحیت کی بھی نشاندہی کی جاچکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قومی مینوفیکچرنگ پالیسی میں مینوفیکچرنگ ماحاصل کوجی ڈی پی کے 25فیصد تک بڑھانے کا نشانہ رکھا گیا ہے۔
ای ای پی سی انڈیا جس کے تقریباً 60فیصدممبران ایم ایس ایم ای سیکٹر سے آتے ہیں، بھارت کے انجینئرنگ ایم ایس ایم ایز کی ترقی میں معاون کردار ادا کر رہا ہے۔یہ انجینئرنگ مصنوعات تیار کرنے والےایم ایس ایم ایز کو فروغ دینے کے لیے حکومت کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے اورتکنیکی اپ گریڈیشن کے لیے کامرس کےمحکمہ کی پہل کے مطابق،انجینئرنگ ایم ایس ایم ایز کی تکنیکی ڈھیل کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے بنگلورو اور کولکتہ میں دو ٹیکنالوجی مراکز قائم کیے ہیں۔
جناب دیسائی نے کہا ’’ہم انجینئرنگ ایم ایس ایم ایز کی اپ گریڈیشن کے لیے اپنی اسٹریٹجک کارروائیوں کو جاری رکھنے کے ذریعے عالمی ویلیو چین نے اس شعبے کے اعلیٰ انضمام کے تئیں اپنی بہترین کوشش کا وعدہ کرتے ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ ایم ایس ایم ایز کے لیے مکمل طور پر وقف اس طرح کے سربراہی اجلاس ہمارے مقصد کو حاصل کرنے میں ہماری مدد کریں گے۔‘‘
کانکلیو کے افتتاحی اجلاس میں’انڈین ایم ایس ایم ایز کو گلوبل ویلیو چین میں مربوط کرنا‘ کے عنوان سے معلومات سے متعلق ایک اخبار بھی جاری کیا گیا۔ اخبار نے مشورہ دیا ہے کہ بھارت کے کاروباری نظام کو ملک میں ویلیو ایڈیشن کو فروغ دینا چاہیے۔لہذا عام محصولاتی ڈھانچہ خام اور بنیادی اشیا پر کم،اور درمیانہ درجہ کی مصنوعات پرقدرے زیادہ اور حتمی مصنوعات پر سب سے زیادہ ہونا چاہیے۔
اس نے مزید سفارش کی کہ براہ راست اور بالواسطہ ٹیکس کا ڈھانچہ غیر جانبدار ہونا چاہیے اور فرموں کی نوعیت کے درمیان تفریق نہیں کرنی چاہیے۔بینکوں اور مالیاتی اداروں کو حقیقی برآمد کاروں کو پہچاننے کے لیے زیادہ قابل فہم ہونا چاہیے اورکم ضمانت کا مطالبہ کرنا چاہیے۔آخر کار،کم مداخلت کے ساتھ پالیسی اقدامات میں استحکام اور حکومت کی جانب سے غیرجانبداری پر زور دیا جانا ضروری ہے۔
*************
ش ح ۔ ش ر ۔ م ش
U. No.556